پپروفیسر غفور احمد کی تصنیف کردہ کتابیں پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔ ان کے انٹرویو کی ویڈیوز اور دیگر اہم ویڈیوز دیکھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

1977 Pakistani military coup

Historical Pictures

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وقت  کے ساتھ قومیں ترقی کرتی ہیں مگر ہماری قوم انحطاط کا شکار ہے- آج  ہر طرف مسجدیں بھری  نظر آتی  ہیں , مردوں کی اکثریت داڑھی رکھتی ہے, خواتین پہلے سے زیادہ  حجاب لیتی ہیں, قران کے حافظ اور قاری بھی  بہت زیادہ  ہیں لیکن ان سب  کے اثرات   ہمارے معاشرے میں  کہیں نظر  نہیں آتے  بلکہ  دیکھا جائے تو ہر طرف دکھاوا ہی دکھاواہے-ان حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے  خیال آیا کہ اس سے پہلے کہ  اباجی کی لکھی ہوئی کتابیں اور ان کی بے لوث خدمات  اس   معاشرے میں کہیں  کھو جائیں ,کیوں نہ ایک ویب سائٹ بنائی جائے جس کے ذریعے اباجی کی وہ کتابیں جن میں  انہوں نے تقریبا” تیس سال کی تاریخ لکھی ہے اس میں محفوظ کر لی جائیں- آج تو ہمارا معاشرہ گہری نیند میں  ہے لیکن  کبھی تو وہ وقت  آئے گا  کہ لوگ حقیقی تاریخ کو جاننا چاہیں گے اور اپنی  اصلاح کی طرف توجہ دیں گے آج کی نوجوان نسل کرپٹ اور جھوٹے سیاستدانوں کو دیکھ کر انتہائی مایوس ہے۔ میں ابا جی کے بارے میں اپنے کچھ ذاتی مشاہدات اور احساسات بتانا چاہتا ہوں تاکہ لوگ اپنے لیڈروں کا انتخاب کرتے وقت موازنہ کر سکیں اور سنجیدگی سے سوچ سکیں۔ ان کے غلط انتخاب نے پہلے ہی کراچی کو بالخصوص اور پاکستان کو بالعموم برباد کر دیا ہے۔

انیس سو ستر  میں اباجی  پہلی  مرتبہ لیاقت آباد  کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے – اس الیکشن میں جماعت اسلامی کے صرف چار افراد منتخب ہوئے تھے -آج کل تو سیاست کا مطلب پیسہ  ہے لیکن ابا جی کے منتخب ہونے کے بعد ہماری مالی حالت ابتر ہوگئی- اباجی کراچی کی ایک بڑی کمپنی   میں  اچھے عہدے پر فائز تھے اور ہمارے گھر میں ہمیشہ دو نئی گاڑیاں موجود ہوا کرتی تھیں   لیکن بھٹو حکومت نے کمپنی کے مالک کو پریشان کرنا شروع کردیا,-جب اباجی کو احساس ہواکہ حکومت  ان کی وجہ سے اس کمپنی کو نقصان  پہونچانے کی کوشش کررہی ہے  تو انہوں نے وہاں سے استعفی دے دیا نتیجتا” دونوں گاڑیاں بھی واپس ہوگئیں – جو کچھ تنخواہ  اباجی کو بطور  رکن قومی اسمبلی ملا کرتی تھی, اس پر گزارہ  کرنا شروع کردیا  – مجھے یاد ہے ایک سال عید پر ہمارے ہاں قربانی نہیں ہوئی تھی

اس زمانے میں ہر ممبر قومی اسمبلی کو اپنے استعمال کرنے کے لئے ایک گاڑی کا پرمٹ  ملا کرتا تھا- اس کی وجہ سے ستر ہزار روپے والی گاڑی  بیس ہزار روپے میں ملاکرتی تھی-اباجی نے پوری پارلیمانی زندگی یہ پرمٹ نہیں لیا    اباجی کے ڈی اے، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی گورننگ  باڈی کے  ممبر تھے -غالبا”   یہ 1974 سے 1977  تک کا دور تھا- اس  گورننگ باڈی کے چند ہی ممبر ہوا کرتے تھے,پورا کراچی اس وقت  پلاٹوں کے حصول کے لئے خالی تھا-اباجی چاہتے تو پورے خاندان کے لئے  پلاٹ لے سکتے تھے لیکن   انہوں نےکسی کے لئے ایک پلاٹ بھی نہیں لیا

اباجی1974  میں   امریکہ اور کینیڈا کے دورے پر گئے-یہ دورہ تقریبا” ایک ماہ کا تھا جس کا مقصد  وہاں کی پاکستانی کمیونیٹی سے ملنا تھا-پاکستان واپس آنے کے بعد ہمارے گھر پر جماعت اسلامی کے کارکنان کا اجتماع تھا تاکہ اباجی دورے کی تفصیلات بتائیں-مجھے آج تک  اباجی کا ایک جملہ  یاد ہے جو انہوں نے بھٹو کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ تم اس شخص کو کیسے خرید سکتے ہو جوکہ  ایک شیروانی اور دو جوڑوں میں امریکہ کاسفرکرتا ہو

پاکستان کے 1973  کے آئین کو  منظور کروانے میں اباجی  کا بہت زیادہ حصہ تھا- بھٹو کی خواہش تھی کہ یہ آئین  متفقہ طور پر منظور ہو- پوری  آئین کی کمیٹی  میں  صرف اباجی کی وہ ذات تھی جس کے سارے ممبران سے اچھے تعلقات تھے-اباجی اس کمیٹی کے بہت متحرک رکن تھے  اور انہوں نے  بہت محنت کرکے  ولی خان اور دوسرے ارکان کو راضی کیا  کہ اس کو منظور کریں-

ہمارے والد نے 1977 کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف پی این اے کی تحریک میں بہت اہم اور مثبت کردار ادا کیا۔ وہ اپنے سیاسی کیرئیر کے عروج پر تھے۔ وہ نو جماعتوں کے اتحاد کے سیکرٹری جنرل تھے اور پی این اے کے تین ارکان میں سے ایک تھے جو بھٹو کی حکومت کے تین ارکان کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ ان کے درمیان معاہدہ ہو گیا لیکن جنرل ضیاء نے 5 جولائی 1977 کو مارشل لاء لگا دیا، لگتا ہے کہ وہ پہلے سے ہی اس کی منصوبہ بندی کر چکے تھے۔

ابا جی نے ہمیں کئی بار بتایا تھا کہ ان کی زندگی کا بدترین دور وہ تھا جب جماعت نے انہیں مارشل لاء کے دور حکومت میں بطور وزیر کابینہ میں شامل ہونے کو کہا۔ ابا جی مارشل لاء کے خلاف تھے۔ وہ صرف نو ماہ کابینہ میں رہے اور جنرل ضیاء کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد پی این اے کے تمام وزراء نے استعفیٰ دے دیا۔ لیکن جنرل ضیاء نے الیکشن کرانے کا اپنا وعدہ کبھی پورا نہیں کیا۔

اسی زمانے کا  ایک واقعہ مجھے  یاد  ہے جب میرے ایک دوست نے  سیمنٹ کی ایجنسی لینے کے لئے  اباجی کو درخواست دی-اس وقت اس کے پاس پہلے سے  دو ایجنسیاں تھیں- نئی ایجنسی دینے کے بجائے  اباجی نے اس کی دوسری ایجنسی منسوخ کردی-

جنرل ضیا الحق  نوے دن  کا وعدہ کر کے  آئےلیکن  انہیں  کرسی سے ایسی محبت ہوئی کہ اس سے چمٹ کر رہ گئے-یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب اباجی وزیر تھے- عید کا دن تھا اور اباجی عید کی نماز پڑھ کر دفترجماعت اسلامی کراچی چلے گئے-اخبار جنگ کی مین ہیڈنگ پر اباجی کا ایک انٹرویو تھا کہ الیکشن اکتوبر میں ہونگے-صبح دس بجے کے قریب  ایوان صدر سے فون آیا جو میں نے ہی اٹھایا – مجھے بتایا گیا کہ جنرل صاحب اباجی سے ضروری بات کرنا چاہتے ہیں- واپس آکر اباجی نے  صدر ضیا  کو فون کیا- میرا کمرہ اباجی کےکمرے سے دور تھا لیکن مجھے اباجی کے زور سے بولنے کی آواز آرہی تھی-وہ ضیا سے کہہ رہے تھے کہ اگر آپ  الیکشن اکتوبر میں کرواناچاہ رہے ہیں اور اگر میں نے کہہ دیا  تو کیا برا کیا- اس کا  تومطلب  یہ ہے کہ آپ الیکشن کروانے میں سنجیدہ نہیں ہیں

اباجی نے یہ واقعہ مجھے خود بتایا تھا – جب 1979  میں بھٹو کو پھانسی دی گئی  تو چوہدری ظہور الہی کا اباجی   کے پاس  فون آیا اور انہیں پھانسی کی اطلاع خوشی کے انداز میں دی تو اباجی نے انہیں کہا کہ یہ  خوشی کا نہیں بلکہ غم اور عبرت کا موقع ہے- اباجی نے اس دن کوئی کام نہیں کیا اور اپنے کمرے میں رہے-اس وقت اباجی ضیا حکومت میں وزیر تھے- اباجی اپنے  پورے وزارت کے دور میں  اسلام آباد میں اسٹیل ملز کےگیسٹ  ہاوَس کے ایک کمرے میں رہے- ہماری فیملی کا  کوئی فرد وزارت کے” مزےلوٹنے” اسلام آباد نہیں گیا- پورے دور میں نہ کوئی پولیس والا ہمارے گھر پر ہوتا تھا اور نہ ہی  کسی  گارڈ کی تعیناتی

ایک دفعہ نواز شریف کے لئے  اباجی نے گھر پر دعوت رکھی ہوئِ تھی جبکہ نوازشریف وزیراعلی پنجاب تھے اور آئی جے آئی کے  صدر تھے- اباجی آئی جے آئی کے سکریٹری جنرل تھے-نوازشریف کو آنے میں دیر ہورہی تھی- اتنے میں عصر کا وقت ہوگیا- اباجی سیدھے پیدل مسجد چلے گئے – لوگ کہتے رہ گئے  کہ گھر پر نماز پڑھ لیں-بات چھوٹی سی ہے لیکن سمجھنے والے سمجھ جائیں گے

میں تمام لوگوں کو خلوص دل سے مشورہ دیتا ہوں کہ کچھ وقت نکال کر میرے والد کی تصنیف کردہ کتابوں کا مطالعہ کریں کیونکہ اگرچہ وہ ان سالوں یعنی 1970 سے 2000 میں بہت فعال اور مثبت کردار ادا کر رہے تھے لیکن انہوں نے ان کتابوں میں اپنی سیاسی کامیابیوں کو پیش نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے غیر جانبداری سے ان سالوں کے سیاسی اور علاقائی حالات کا خلاصہ کیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ میرے والد نے کتاب کے آخر میں تمام تاریخی اصل دستاویزات شامل کی ہیں، خاص طور پر حکومت اور پی این اے کے درمیان وہ معاہدہ جو 4 جولائی کی رات طے پایا تھا۔ ، 1977

اس تاریخی معاہدے کی اصل دستاویزات صرف میرے والد کے پاس تھیں۔

آپ میں سے جو لوگ دلچسپی رکھتے ہیں، براہ کرم ان کی کتاب “پھر مارشل لاء آ گیا” پڑھیں، آخری صفحات دیکھیں۔ زیادہ تر ہاتھ سے لکھی ہوئی تصحیح میرے والد نے کی تھی۔
مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ ایک وقت آئے گا جب یہ کتابیں باضابطہ طور پر تعلیمی اداروں میں پاکستان کے سیاسیات کے نصاب میں شامل ہوں گی

آج کی سیاست کی دنیا میں اباجی جیسے لوگ نہیں ہیں-آج سیاست کا مطلب کرپشن اور رعونیت  ہے , اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ حکومتی اور طاقتور طبقہ سمجھتا ہے کہ نہ انہیں مرنا ہے اور نہ انہیں  اللہ کو جواب دینا ہے- قران میں جہاں اللہ پر ایمان لانے کا ذکر ہے وہاں آخرت پر ایمان کا بھی ذکر ہے

وہ ایک حقیقی درویش, ۔ اللہ کے برگزیدہ بندوں میں سے تھے، انشاء اللہ قیامت کے دن ان کا استقبال اسی طرح ہوگا جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

 

ابا جی نے اپنی سیاسی زندگی میں جو کچھ بھی حاصل کیا ​, اس میں ہماری امی کا بہت بڑا حصہ ہے- پورا گھر امی نے سنبھالا ہوا تھا – چند ہزار میں امی بغیر قرضہ لیے گھر چلاتی تھیں-اللہ ان دونوں کی مغفرت کرے اور جنت میں اعلی مقام دے آمین

کرپٹ لیڈر اس دنیا میں سزا سے بچ سکتے ہیں لیکن ہمارا ایمان ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔

لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ کیا بحیثیت قوم ہم بھی انہیں منتخب کرنے پر اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے؟؟؟؟

یہ مختصر سا ابتدائیہ اس لئے لکھا ہے کہ پاکستانی عوام سچے لوگوں کو تلاش کریں ورنہ یونہی دھوکہ کھاتے رہیں گے

آخر میں میں سب سے گزارش کرتا ہوں کہ براہ کرم قرآن مجید سے جڑیں، اسے روزانہ ترجمہ کے ساتھ پڑھیں۔
خاکسار

خالد شجاع

اور تمام بہن بھائی

Feb 14,2022

­­­­Shuja11714@gmail.com

Prof Ghafoor Ahmed’s Brief Biography Published in The Express Tribune, December 27th, 2012.

Jamaat-e-Islami’s Vice Amir Professor Ghafoor Ahmad passed away at the age of 85 on Wednesday,Dec 26,20122 after prolonged bouts of poor health. Prof. Ghafoor breathed his last on way to the Patel Hospital Karachi, where he was rushed after his condition deteriorated.

His funeral prayers will be offered today (Thursday) at 4:30pm at New MA Jinnah Road, near Islamia College. He is survived by three sons and six daughters. Prof. Ghafoor’s career was a long and illustrious one. He was well-known for his soft spoken nature and even temper.

It was on the night of January 28, 1973 when he made his first appearance on Pakistan Television (PTV), which left an unforgettable mark on the minds of many.

He spoke against the presidential form of government that the then premier, Zulfiqar Ali Bhutto, preferred. Veteran journalist Farhad Zaidi hurled one question after another in support of the government but Prof. Ghafoor kept on answering calmly. The next day Dawn newspaper called him “the Jamaat centre forward.”

Prof. Ghafoor worked as an accountant but later adopted teaching as a profession and remained a faculty member of the Commerce and Economics Department at Urdu College from 1950 to 1956 and then again from 1957 to 1961.

He also served as a lecturer at the Institute of Chartered Accountants of Pakistan, Jinnah Institute of Industrial Accountants and Pakistan Institute of Industrial Accountants. He also served as member of Sindh University’s curriculum committee and curriculum board of the University of Karachi.

The writings of Maulana Syed Abul Ala Maududi, the founder of Jamaat-e-Islami, had been an inspiration for him like many others since 1944 but he formally became part of the party in 1950, after migrating to Pakistan in middle of 1949.

In April 1958, the JI decided to take part in the local body elections of Karachi for the first time. Prof. Ghafoor was elected member of the Karachi Metropolitan Corporation (KMC) from Liaquatabad by securing 5,803 votes.

However, he could work for just five months as on October 7, 1958, then president Iskandar Mirza staged a coup, imposed martial law and appointed Gen Mohammad Ayub Khan as the Chief Martial Law Administrator. Despite his influence within Jamaat-e-Islami and to some extent in Karachi, Prof. Ghafoor remained largely unknown in national politics until he was elected to the National Assembly from Karachi in 1970. Thereafter, he gradually built his stature as a politician who was respected even by his adversaries.

Soon after the promulgation of the 1972 interim constitution, a committee of 25 members of the national assembly was formed that consisted of the parliamentary leaders of all political parties. Prof. Ghafoor was one of its most active members.

ZA Bhutto preferred a presidential form of government, something that all the political parties opposed. Finally, a draft favouring a parliamentary form of government was submitted to the National Assembly after much reconciliation and delay on December 31, 1972.

That was the time Prof. Ghafoor appeared on PTV. While revisiting the political ups and downs of the time, ZA Suleri, a notable journalist and writer, called him the finest parliamentary leader of the Bhutto era in an article published in Daily Jang on July 21, 1977.

He was also nominated as the secretary general of the United Democratic Front, which was formed on March 13, 1973 by JI and other opposition parties to counter the PPP.

Later, at the time of parliamentary elections, the opposition parties gelled into the Pakistan National Alliance (PNA) and Prof. Ghafoor served as its secretary general from 1977 to 78. He was also a member of the team that carried out crucial negotiations with ZA Bhutto.

He served as federal minister for industries in 1978-79. He was also secretary general of the Islami Jamhoori Ittehad between 1988 and 1990.

(WITH ADDITIONAL REPORTING BY OUR CORRESPONDENT)

Published in The Express Tribune, December 27th, 2012.

Scroll to Top
Scroll to Top